بھٹکل 20؍جون (ایس او نیوز) انتخابات کا موسم سامنے دیکھ کر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مقامی یا بڑے لیڈروں کی دل بدلی کا سلسلہ چل پڑنا ایک عام سی بات ہے۔ مگر جب یہ بات بر سراقتدار پارٹی کے ساتھ ہوتو پھر اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا دیکھا یہ جارہا ہے کہ ضلع شمالی کینرا میں ہی کئی کانگریسی لیڈروں نے حال کے دنوں میں 'ہاتھ'کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔
اس کا سبب ضلع کانگریس میں ہمیشہ سے موجود گروپ بندی بتایا جاتاہے۔اسی وجہ سے اکثر یہاں پارٹی کے لیڈران میں اختلافات اور بغاوت کے معاملات دیکھنے میں آتے ہیں۔مگر آج کل اس میں مقامی لیڈروں کی ذاتی مفاد پرستی، انتظامی کمزوریاں، اور خود اپنی امیج بنانے کا موقع نہ ملنے کی شکایت سے پیدا ہونے والی دل برداشتگی کا رول اہم ہوگیا ہے۔ کانگریس سے بیزاری اور اسے چھوڑ کر جانے کا سلسلہ کسی ایک مقام تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ضلع بھر میں بھٹکل کے کونے سے لے کر انچارج وزیر آر وی دیشپانڈے کے مائیکے تک اس کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
ضلع اور تعلقہ پنچایت الیکشن کے پس منظر میں کئی ایک لیڈروں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔جس نے بغاوت کا راستہ اپنایا تھا اس کو ضابطے کی کارروائی کے تحت باہر کا راستہ دکھا دیا گیا تھا۔وہی بات ودھان پریشد اور مقامی بلدیہ ادروں کے صدور اور نائب صدور کے انتخابات کے موقع پر بھی سامنے آئی تھی۔اس کا نتیجہ یہ ہے ضلع کے اندر بہت سارے کانگریسی کارکن اور لیڈر اب کانگریسی نہیں رہے۔ضلع پنچایت الیکشن کے پس منظر میں کانگریس کے ضلع جنرل سکریٹری کئیتان باربوز، نارائن دڈّی، ضلع پنچایت رکن کمٹہ کے گجانن پائی،سداپور تعلقہ پنچایت کے اس وقت کی صدر شانتی ہسلر، سروجا اڈے منے وغیرہ نے کانگریس کو ہاتھ دے کر جے ڈی ایس کیمپ میں شامل ہوگئے تھے۔اس سے پہلے کمٹہ کے ڈاکٹر جی جی ہیگڈے، اے آئی سی سی کی رکن سدھا گوڈا وغیرہ نے ہاتھ میں بی جے پی کا کنول تھام لیا تھا۔بھٹکل پی ایل ڈی بینک کے صدراور کانگریس پسماندہ شعبے کے سکریٹری شیرالی کے سنیل نائک نے بھی بی جے پی کے دامن میں پناہ لی تھی۔اوراب کیسکارڈ بینک کے نائب صدر بھٹکل کے ایشور نائک نے بھی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
لہٰذا سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے سامنے یہ سوال ہے اب اس کے بعد کس کا نمبر لگنے والا ہے۔کیا رویندرا نائک، وی این نائک، وسنت نائک جیسے کانگریسی لیڈران یہی راستہ اپنائیں گے اور کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیں گے ۔ اس تعلق سے کانگریسی کارکنان میں چہ میگوئیاں جاری ہیں۔لگتا ہے ضلع کانگریس صدر کے انتخاب تک کا کچھ لوگ انتظار کررہے ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ کانگریس کو ہاتھ دے کر دوسری پارٹیوں سے ہاتھ ملانے کا دوسرا راؤنڈ تب شروع ہوجائے گا۔